نم اشک آنکھوں سے ڈھلنے لگا ہے
Appearance
نم اشک آنکھوں سے ڈھلنے لگا ہے
کہ فوارہ خوں کا اچھلنے لگا ہے
ڈبا دل کا گھر آنکھ تک آن پہنچا
اب آنسو کا نالا ابلنے لگا ہے
یہ سیب آنب شفتالو نارنگی کمرکھہ
ترے باغ کا میوہ پلنے لگا ہے
تمہاری میاں دیکھ یہ پھل پھلاری
مرا طفل دل تو مچلنے لگا ہے
کھجوریں سموسے تلے کچھ دلا دو
اجی! جی مرا ان پہ چلنے لگا ہے
ابھی آئے کہتے ہو جاتا ہوں لو جی
یہ سنتے مرا جی دہلنے لگا ہے
مری جان جلد اظفریؔ پاس آ جا
کہ جی اس کا تجھ بن نکلنے لگا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |