Jump to content

نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوا

From Wikisource
نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوا
by میر تقی میر
313547نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوامیر تقی میر

نکلا ہے خیمہ شام کو شہ کا جلا ہوا
لاشہ ہے آفتاب میں اس کا پڑا ہوا
عابد اسیر ہو کے چلا ہے بندھا ہوا
ناموس ساتھ قافلہ جیسے لٹا ہوا

بیمار و زار پاؤں میں طاقت تنک نہیں
مرگ پدر کے غم سے فراغت تنک نہیں
پھر جور اہل شام سے فرصت تنک نہیں
جاتا ہے جی قدم قدم اوپر چلا ہوا

ناموس کو جو دیکھے ہے حال خراب سے
آنکھیں نہیں کسو سے ملاتا حجاب سے
جس وقت گر پڑے ہے کہیں اضطراب سے
رہ جا ہے دیر دیر تلک پھر گرا ہوا

جاتا ہے سوے شام دن اپنا سیاہ کر
گرتا ہے گام گام پر اک دل سے آہ کر
مانند آفتاب قیامت نگاہ کر
سر کو پدر کے راہ میں نیزے چڑھا ہوا

اس لشکر شکستہ و خستہ کا ایک بار
میداں میں کارزار کے ہوکر ہوا گذار
دیکھا جو خاک و خوں میں کٹا سر وہ تاجدار
کہنے لگا ہر ایک کہ اے شہ یہ کیا ہوا

کل تک تو بزم ناز کا مسندنشیں تھا تو
اسلامیوں کی رونق ایمان و دیں تھا تو
مسجود خلق و قبلۂ اہل یقیں تھا تو
ہنگامہ تیرے سر پہ یہ کیسا بپا ہوا

امت نے کیوں نبیؐ کی کیا تجھ کو یوں ہلاک
تھا کیا سبب کہ بستر راحت ہوئی ہے خاک
کچھ وجہ بھی کہ دھوپ میں جلتا ہے جسم پاک
رویت علیؓ کی جاتی رہی کیا بلا ہوا

اکبر جو تھا شبیہ محمدؐ سو ووں گیا
اصغر تڑپ کے تشنہ دہانی سے یوں گیا
جانے کو اپنے آپ تو جانے ہے جوں گیا
گھر کا ترے گئے پہ عجب ماجرا ہوا

خیموں پہ تیرے دوڑ پڑے ناگہاں کئی
اسباب میں ردا نہ ہمارے کنے رہی
بے پردہ ہوکے ہم نے ہر اک کی جفا سہی
عابد ضعیف در تئیں آیا کھنچا ہوا

ارمان کیسے کیسے گئے ساتھ لے جواں
ہر لحظہ ایک ماتم تازہ رہا ہے یاں
شادی اگر رچی تھی تو اس طرح اپنے ہاں
قاسم شہید آن کے جوں کدخدا ہوا

اعوان یوں تلف ہوئے کٹتی ہے جیسے گھاس
انصار اس طرح کٹے وحشی ہوں جوں اداس
اسباب ظاہری نہ رہا کچھ کسو کے پاس
وابستہ تھا جو کوئی ترا سو گدا ہوا

کیوں غرق خون ہوکے ہمیں تو ڈبو گیا
کیوں ہم سے بے علاقہ و فارغ سا ہوگیا
میداں میں کارزار کے کیا آکے سوگیا
آیا نہ پھر جو گھر کی طرف تو گیا ہوا

آتے بھی ہیں جو اٹھتے ہیں اپنے مکان سے
دل تنگ ہوکے جاتے بھی ہیں پر نہ جان سے
تو اٹھ کے جو گیا سو گیا پھر جہان سے
کیا جانے تو کہ گھر پہ ترے پیچھے کیا ہوا

فرزند و زن اسیر ہوئے ٹک تو آنکھ کھول
خیمے گرے پڑے ہیں کھڑے غول کے ہیں غول
حیرت سے ہم تو چپ ہیں بھلا تو تنک تو بول
اک شور ہے جو منھ مندے تو ہے پڑا ہوا

غارت علی العموم تھی تھا حکم قتل عام
مارے گئے چنانچہ ترے اقربا تمام
واماندگاں چلے ہیں اسیرانہ سوے شام
ہے اک چراغ خانہ سو جاوے بجھا ہوا

یعنی وہ سخت سست ہے بیمار عابدیں
تس پر بندھا ہے جیسے گنہگار عابدیں
ناموس کو جو دیکھے ہے یوں خوار عابدیں
گریاں برنگ ابر ہے آگے کھڑا ہوا

روتی ہے جب سکینہ تو روتا ہے زار زار
آخر کو گر پڑے ہے وہ بے تاب ڈاڑھ مار
جاتی ہے چھوٹ ہاتھ سے اونٹوں کی گر مہار
کیا کیا سنے ہے غیروں سے چھاتی جلا ہوا

کیا کہیے تیرے غم سے جگر ہو گیا گداز
تجھ پیشوا کی لاش کو ہے خاک و خوں سے ساز
کر ذبح تجھ کو دوڑے ہیں شامی پئے نماز
خوب ان سے تیرا حق امامت ادا ہوا

سینے تمام داغ ہیں دل میں ہیں آبلے
ہرگز نہ اس چمن میں گل آرزو کھلے
جی چاہتا تھا مسند عزت تجھے ملے
سو ہم نے تجھ کو خاک میں دیکھا ملا ہوا

بیگانگی نہ طبع میں تھی تیرے اس قدر
سو بار تجھ سے ہوتے تھے آپس میں حرف سر
کیا ہوگیا کہ تجھ کو ادھر اب نہیں نظر
یا وہ تپاک تھا کہ یہ ناآشنا ہوا

آزردہ ہم میں کس سے ہے تو کیا ملال ہے
وہ کون تیرا باعث رنج و نکال ہے
رنجش ہی کا دماغ میں اب تک خیال ہے
جاتا ہے ہم سبھوں سے ترا سر جدا ہوا

کچھ گرم رو نہیں ہے سناں پر ترا ہی سر
ہم پر بھی تیرے پیچھے ہے درپیش اک سفر
کیا بے مروتی ہے بھلا منھ تو کر ادھر
یہ قافلہ بھی سر سے ہے تیرے لگا ہوا

اس واقعے کے بعد بھی تھا دل میں یہ خیال
ماتم رکھیں گے دیر بہت کھینچیں گے ملال
گاڑیں گے تیری لاش بصد عزت و جلال
سو خاک میں بھی تجھ کو نہ دیکھا چھپا ہوا

چاہا ترے محبوں کا ہرگز ہوا نہ آہ
بے آب یہ جہاز ہوا دشت میں تباہ
دریا بہے لہو کے جہاں تک گئی نگاہ
دشمن کے حسب خواہش دل مدعا ہوا

کیا نقل کریے حالت دشوار بعد جنگ
دم بھی لیا گیا نہ ہوا کام ایسا تنگ
القصہ زندگانی ہوئی ہم سبھوں کو ننگ
تو کوئی دم جو آگے گیا تھا بھلا ہوا

خیمے جلے اسیر ہوئے دیر تک گھرے
لوٹے گئے ردائیں گئیں مضطرب پھرے
کیا کیا نہ پیش آیا ہمیں جاتے ہی ترے
پوشیدہ کیا ہے یہ جو ستم برملا ہوا

برباد اس طرح سے نہیں جاتے گھر کہیں
ملتے نہیں ہیں خاک میں یوں در تر کہیں
چلتی نہیں ہے تیغ جفا اس قدر کہیں
جو تن نظر پڑے ہے تو ہے سر کٹا ہوا

کیا ظلم ہے کہ ابن علی تشنہ لب مرے
اور اس کی لاش کو نہ کوئی قبر میں دھرے
آب حیات پانی جنھوں کا بھرا کرے
سو نام اس گروہ کا وارث موا ہوا

عمر دراز جان کی اپنی ہوئی وبال
اتنا نہ جیتے ہم تو نہ یہ کھینچتے ملال
دیکھا علی کے بیٹے کو اس طرح پائمال
جس کا نہ نام لیں وہ سنا بادشا ہوا

کہتے تھے ہم حسین کو دیکھیں گے بادشاہ
گرد اس کی رہ کی جائے گی تا چرخ رو سیاہ
سو اس کو خاک و خون میں دیکھا طپیدہ آہ
تڑپے بہت ولے نہ ہمارا کہا ہوا

تھے لاش سے یہ حرف جگرسوز درمیاں
جو مانع درنگ ہوئے جورپیشگاں
ناچار واں سے گریہ کناں سب ہوئے رواں
اس کارواں کا عابد نالاں درا ہوا

ہرچند شاعری میں نہیں ہے تری نظیر
اس فن کے پہلوانوں نے مانا تجھی کو میرؔ
پر ان دنوں ہوا ہے بہت تو ضعیف و پیر
کہنے لگا جو مرثیہ اکثر بجا ہوا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.