نہیں قول سے فعل تیرے مطابق
نہیں قول سے فعل تیرے مطابق
کہوں کس طرح تجھ کو اے یار صادق
نہ جنت کے قابل نہ دوزخ کے لائق
مجھے کیوں کیا خلق اے میرے خالق
ہوئے ہجر میں وہ مرض مجھ کو لاحق
رہے دنگ جس میں اطبائے حاذق
بھروسا کرم پر ہے ہم عاصیوں کو
غضب پر سمجھتے ہیں رحم اس کا فائق
فقط کنہ ذات اس کی اب تک نہ سمجھے
ہوئے منکشف اور سارے دقائق
جھگڑ لیں گے آپس میں شیخ و برہمن
تجھے کیا بکھیڑوں سے او مرد عاشق
جو یہ اس کی رحمت کی طغیانیاں ہیں
کجا زہد زاہد کہاں فسق فاسق
کیا نفس کو مجھ پہ کیوں تو نے غالب
نہ تھا کیا تری بندگی کے میں لائق
نہ رکھنا مجھے اپنی رحمت سے محروم
تری ذات سے ہے یہ امید واثق
نہ تاب آئے گی حسن کی تیرے اے دوست
میں موسیٰ نہیں ہوں جو جلوے کا شائق
تجرد کا عالم تجھے کیا برا تھا
ہوا کس لیے پائے بند علائق
شکایت کا فقرہ زباں تک نہ آیا
بہرحال کرتا رہا شکر خالق
سر و چشم سے میں بجا لاؤں صاحب
جو خدمت کوئی ہووے بندے کے لائق
بھلا کس سے بہلاؤں دل اس چمن میں
نہ سنبل نہ نسریں نہ گل نہ شقائق
رولاتے ہو عاشق کو بے وجہ و باعث
ہنسے گی مری جان تم پر خلائق
کئے معجزے حسن نے دونوں یکجا
شب تیرہ گیسو جبیں صبح صادق
کہا سن کے افسانۂ قیس و لیلیٰ
عبث کرتے ہو حال میں ذکر سابق
گیا وہ زمانہ وہ لوگ اڑ گئے سب
نہ معشوق ویسے رہے اب نہ عاشق
شنیدیم نام و نشانش ندیدیم
چو عنقاست معدوم یار موافق
مری جان مدت سے مرتا ہوں تجھ پر
ترے چاند سے منہ کا عاشق ہوں عاشق
ہوا رشک لیلیٰ کی فرقت میں مجنوں
مرا حال اور قیس کا ہے مطابق
عبث فوق دیتا ہے تو خود کو ناداں
کیا ایک کو ایک پر اس نے فائق
وہ منشی بنے قدرت حق تو دیکھو
جو مکتب میں پڑھتے تھے انشائے فائق
دعا ہے یہی اور یہی ہے تمنا
نجف میں مرے جا کے یہ رندؔ فاسق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |