Jump to content

نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا

From Wikisource
نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا
by انعام اللہ خاں یقین
302724نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزراانعام اللہ خاں یقین

نہیں معلوم اب کی سال مے خانے پہ کیا گزرا
ہمارے توبہ کر لینے سے پیمانے پہ کیا گزرا

برہمن سر کو اپنے پیٹتا تھا دیر کے آگے
خدا جانے تری صورت سے بت خانے پہ کیا گزرا

مجھے زنجیر کر رکھا ہے ان شہری غزالوں نے
نہیں معلوم میرے بعد ویرانے پہ کیا گزرا

ہوئے ہیں چور میرے استخواں پتھر سے ٹکرا کے
نہ پوچھا یہ کبھی تو نے کہ دیوانہ پہ کیا گزرا

یقیںؔ کب یار میرے سوز دل کی داد کو پہنچے
کہاں ہے شمع کو پروا کہ پروانہ پہ کیا گزرا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.