نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق
Appearance
نہ ادا مجھ سے ہوا اس ستم ایجاد کا حق
میری گردن پہ رہا خنجر بیداد کا حق
ناصحو گر نہ سنوں میں مری قسمت کا قصور
تم نے ارشاد کیا جو کہ ہے ارشاد کا حق
یاد تو حق کی تجھے یاد ہی پر یاد رہی
یار دشوار ہے وہ یاد جو ہے یاد کا حق
اپنی تصویر پہ صدقے ترے صدقے کر اسے
اسی صورت سے ادا ہووے گا بہزاد کا حق
حق کو باطل کوئی کس طرح سے کہہ دے اے بت
کہیں ثانی نہیں اس حسن خداداد کا حق
جاں کنی پیشہ ہو جس کا وہ لحق ہے تیرا
تجھ پہ شیریں ہے نہ خسرو کا نہ فرہاد کا حق
بار احساں سے نہیں سر بھی اٹھا سکتا ہوں
میرے سر پر ہی رہا اس مرے جلاد کا حق
سن کے کہتا ہے یہاں کون ہے سنتا مت سن
سننے والا ہی سنا اس مری فریاد کا حق
وہی انسان ہے احساںؔ کہ جسے علم ہے کچھ
حق یہ ہے باپ سے افزوں رہے استاد کا حق
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |