نہ اس کے نام سے واقف نہ اس کی جا معلوم
Appearance
نہ اس کے نام سے واقف نہ اس کی جا معلوم
ملے گا دیکھیے کیوں کر وہ بت خدا معلوم
جواب دیکھیے دل لے کے یہ کہا چپکے
نہ ہو یہ اور کسی کو ترے سوا معلوم
لگا کے زخم جگر پر جو پھر نمک چھڑکا
تو اس میں ہم کو ہوا اور ہی مزا معلوم
بدن پری کا ترے تن سے گو کہ گورا ہے
ولے وہ چاہے کہ ایسا ہو گدگدا معلوم
ہم اس پہ مرتے ہیں مدت سے اور وہ کہتا ہے
قسم خدا کی ہمیں تو یہ اب ہوا معلوم
کیا تھا عہد نہ وعدہ نہ قول نے اقرار
جو آ گیا وہ مرے پاس شب کو نا معلوم
جو مجھ سے ہنس کے کہا جس لیے ہم آئے ہیں
نظیرؔ تم نے بھی سچ کہیو کیا کیا معلوم
کہا یہ میں نے مجھے کیا خبر تمہیں جانو
کسی کے دل کی بھلا جی کسی کو کیا معلوم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |