نہ انگیا نہ کرتی ہے جانی تمہاری
نہ انگیا نہ کرتی ہے جانی تمہاری
نہیں پاس کوئی نشانی تمہاری
ہوئی رندؔ تو زندگانی تمہاری
یہی ہے اگر ناتوانی تمہاری
زیادہ ہوئی یاد جانی تمہاری
غرض قہر ہے مہربانی تمہاری
نہ بھولوں گا ہرگز نہ بھولا ہوں اب تک
عنایت کرم مہربانی تمہاری
شبیہ آپ کی کھینچ دے گا یہ مانا
ادا کس طرح کھینچے مانی تمہاری
تباہ و خراب اک جہاں کو کیا ہے
خدا کا غضب ہے جوانی تمہاری
وہی کہہ رہا ہوں جو فرماتے ہو تم
مری گفتگو ہے زبانی تمہاری
برابر سمجھتے ہو غیروں کے مجھ کو
رہے مہرباں قدردانی تمہاری
دل و دیدہ لپکا ہے پھنسنے کا تم کو
کہاں تک کروں پاسبانی تمہاری
بس اب شکل دکھلاؤ بے جا ہے غمزہ
بہت سن چکے لن ترانی تمہاری
عدم کو چلا لے کے داغ محبت
دکھاؤں گا سب کو نشانی تمہاری
کیا امتحاں میرا سو معرکوں میں
وہی ہے مگر بد گمانی تمہاری
جگا کر دل زار نے ہجر کی شب
سحر تک کہی ہے کہانی تمہاری
برا گر نہ مانو تو سچ سچ میں کہہ دوں
تم اچھے بری بد زبانی تمہاری
کرم کیجیے آئیے حضرت عشق
ہے خون جگر میہمانی تمہاری
عبث بے سبب بے جہت روٹھتے ہو
یہی تو بری خو ہے جانی تمہاری
بھلا تم ہی منصف ہو للہ بولو
وہ کیا بات تھی جو نہ مانی تمہاری
وہ پیری میں بھی رندؔ دیکھے اب آ کر
جسے یاد ہووے جوانی تمہاری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |