نہ دیا اس کوں یا دیا قاصد
Appearance
نہ دیا اس کوں یا دیا قاصد
سچ بتا نامہ کیا کیا قاصد
نہ پھرا آہ کوئی لے کے جواب
جو گیا واں سو گم ہوا قاصد
آج آوے گا یا نہ آوے گا
میرے گھر میں وہ دل ربا قاصد
دل کو ہے سخت انتظار جواب
کہہ شتابی سے کیا کہا قاصد
کوچۂ یار میں مرے زنہار
جائیو مت برہنہ پا قاصد
خار مژگان کشتگان وفا
واں ہیں افتادہ جا بہ جا قاصد
نامۂ شوق کو مرے لے کر
یار کے پاس جب گیا قاصد
مہر کو خط کی دیکھ کہنے لگا
کون بیدارؔ ہے بتا قاصد
جس نے بھیجا ہے تیرے ہاتھ یہ خط
میں نہیں اس سے آشنا قاصد
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |