نہ دیا بوسۂ لب کھا کے قسم بھول گئے
نہ دیا بوسۂ لب کھا کے قسم بھول گئے
دے کے ایسی مجھے اعجاز کا دم بھول گئے
چشم و ابرو کو ترے دیکھ کے آتا ہے خیال
طاق کسریٰ پہ یہاں ساغر جم بھول گئے
اے شہ حسن یہ قلمیں نہیں عارض پہ ترے
کاتبان خط رخسار قلم بھول گئے
وہ بھی کیا دن تھے کہ عاشق تھے تمہارے ہم بھی
اب تو فریاد و فغاں درد و الم بھول گئے
ہائے قسمت کا لکھا آئے تو قاصد یہ کہے
خط تمہارے لیے وہ کر کے رقم بھول گئے
تیرا گلزار ہے کس باغ کی مولی بلبل
کوئے جاناں میں تو ہم باغ ارم بھول گئے
چشم بد دور وہ آنکھیں ہیں تمہاری صاحب
دیکھ کر چوکڑی آہو حرم بھول گئے
آپ کا دوست ہے یہ اپنی بغل کا دشمن
یاد دلوائے وہیں دل نے جو ہم بھول گئے
ذائقہ موت کا بس یاد دلا دیتا ہے
کیا قیامت ہے یہ کہنا ترا ہم بھول گئے
مرزا مہر محبت تمہیں پھر یاد آئی
دل پہ گزری تھی جو کچھ رنج و الم بھول گئے
رہ گیا یاد تمہیں جور و جفا ظلم و ستم
لطف و الطاف و عنایات و کرم بھول گئے
کعبۂ دل میں بس اب رہتی ہے اللہ کی یاد
راستہ دیر کا ہم شکل صنم بھول گئے
یاد رہتی ہے فقط ہم کو ترے کوچہ کی
واعظوں سے سنا حال ارم بھول گئے
یاد رکھنے کی یہ باتیں ہیں بجا ہے سچ ہے
آپ بھولے نہ ہمیں آپ کو ہم بھول گئے
دل سے دل کو ہے اگر راہ تو ہے یاد سے یاد
تم ہمیں بھول گئے تم کو بھی ہم بھول گئے
بس ہمارے ہی لیے آپ کو نسیاں بھی ہے
کبھی غیروں کو نہ صاحب کوئی دم بھول گئے
کوچۂ زلف میں یا حلقۂ گیسو میں ترے
یاد آتا ہے یہیں دل کہیں ہم بھول گئے
شعر ہندی جو سنے مہرؔ جگر تفتہ کے
اپنا انداز فصیحان عجم بھول گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |