نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
Appearance
نہ رہا گل نہ خار ہی آخر
اک رہا حسن یار ہی آخر
اب جو چھوٹے بھی ہم قفس سے تو کیا
ہو چکی واں بہار ہی آخر
آتش دل پہ آب لے دوڑا
دیدۂ اشک بار ہی آخر
ضد سے ناصح کی میں نے کر ڈالا
جیب کو تار تار ہی آخر
کیوں نہ ہوں تیرے در پہ ہونا ہے
ایک دن تو غبار ہی آخر
کام آیا نہ جائے شمع مزار
یہ دل داغدار ہی آخر
شمع رو پر مثال پروانہ
ہو گئے ہم نثار ہی آخر
وہ نہ آیا ادھر حسنؔ افسوس
رہ گیا انتظار ہی آخر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |