Jump to content

نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیں

From Wikisource
نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیں
by بیخود دہلوی
318855نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیںبیخود دہلوی

نہ سہی آپ ہمارے جو مقدر میں نہیں
اب وہ پہلی سی تڑپ بھی دل مضطر میں نہیں

آپ کی بات کی وقعت نہیں اصلاً دل میں
آپ دم بھر میں تو ہاں کرتے ہیں دم بھر میں نہیں

مجھ کو باور تو جب آئے کہ کچھ امید بھی ہو
لکھ دیا خط میں وہ اس نے جو مقدر میں نہیں

میں نے پوچھا تھا کہو اور ستاؤ گے مجھے
منہ سے نکلی ہے ستم گر کے گھڑی بھر میں نہیں

آپ کیوں ذکر سے بیخودؔ کے خجل ہوتے ہیں
یہ تو وہ نام ہے جو آپ کے دفتر میں نہیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.