نہ ملا ہوں نہ مفتی ہوں نہ واعظ ہوں نہ قاضی ہوں
Appearance
نہ ملا ہوں نہ مفتی ہوں نہ واعظ ہوں نہ قاضی ہوں
گنہ گار و خطا کار و رضائے حق پہ راضی ہوں
جہاں سے ہوں یہاں آیا وہاں جاؤں گا آخر کو
مرا یہ حال ہے یارو نہ مستقبل نہ ماضی ہوں
میں ہوں نادان دور افتادہ دانائی کے دیواں سے
نہ ثانی ہوں سحابی کا نہ ہم بزم بیاضی ہوں
پریشاں دل ہوں میں تنہائی سے ماتمؔ زمانے میں
نہ ہم دوران فیضی ہوں نہ ہم عصر فیاضی ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |