نہ مہ نے کوند بجلی کی نہ شعلے کا اجالا ہے
Appearance
نہ مہ نے کوند بجلی کی نہ شعلے کا اجالا ہے
کچھ اس گورے سے مکھڑے کا جھمکڑا ہی نرالا ہے
وہ مکھڑا گل سا اور اس پر جو نارنجی دوشالہ ہے
رخ خورشید نے گویا شفق سے سر نکالا ہے
کن انکھیوں کی نگہ گپتی اشارت قہر چتون کے
جو ووں دیکھا تو برچھی ہے جو یوں دیکھا تو بھالا ہے
کہیں خورشید بھی چھپتا ہے جی باریک پردے میں
اٹھا دو منہ سے پردے کو بڑا پردہ نکالا ہے
کھلے بالوں سے منہ کی روشنی پھوٹی نکلتی ہے
تمہارا حسن تو صاحب اندھیرے کا اجالا ہے
نہ جھمکیں کس طرح کانوں میں اس کے حسن کے جھمکے
ادھر بندا ادھر جھمکا ادھر بجلی کا بالا ہے
نظیرؔ اس سنگ دل قاتل پہ دعویٰ خون کا مت کر
میاں جا تجھ سے یاں کتنوں کو اس نے مار ڈالا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |