نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر
Appearance
نہ میرے دل نہ جگر پر نہ دیدۂ تر پر
کرم کرے وہ نشان قدم تو پتھر پر
تمہارے حسن کی تصویر کوئی کیا کھینچے
نظر ٹھہرتی نہیں عارض منور پر
کسی نے لی رہ کعبہ کوئی گیا سوئے دیر
پڑے رہے ترے بندے مگر ترے در پر
گناہ گار ہوں میں واعظو تمہیں کیا فکر
مرا معاملہ چھوڑو شفیع محشر پر
ان ابروؤں سے کہو کشتنی میں جان بھی ہے
اسی کے واسطے خنجر کھنچا ہے خنجر پر
پلا دے آج کہ مرتے ہیں رند اے ساقی
ضرور کیا کہ یہ جلسہ ہو حوض کوثر پر
صلاحیت بھی تو پیدا کر اے دل مضطر
پڑا ہے نقش کف پائے یار پتھر پر
وفور جوش ضیا اور ان کے دانتوں کا
حباب گنبد گردوں ہے آب گوہر پر
اخیر وقت ہے آسیؔ چلو مدینے کو
نثار ہو کے مرو تربت پیمبر پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |