نہ کوئی ان کے سوا اور جان جاں دیکھا
Appearance
نہ کوئی ان کے سوا اور جان جاں دیکھا
وہی وہی نظر آئے گا جہاں جہاں دیکھا
بہشت میں بھی اسی حور کو رواں دیکھا
یہاں جو دیکھ چکے تھے وہی وہاں دیکھا
خزان عمر کجا و کجا بہار شباب
فلک کو رشک ہوا کوئی جب جواں دیکھا
گئے جہان سے جو لوگ دو جہاں سے گئے
کسی نے پھر نہ کبھی اپنا کارواں دیکھا
جلایا بزم میں ہر روز شمع کے مانند
ہزاروں باتیں سنائیں جو بے زباں دیکھا
قیامت آئی یہ تڑپا فراق میں اے برقؔ
نہ پھر زمین کو پایا نہ آسماں دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |