نہ کچھ تکرار تم کو ہے نہ کچھ شکوہ ہمارا ہے
نہ کچھ تکرار تم کو ہے نہ کچھ شکوہ ہمارا ہے
یہ دل کیا چیز ہے اب جان تک دینا گوارا ہے
دم رفتار اٹھا فتنے قیامت کا اشارہ ہے
ترا منہ دیکھنا خورشید محشر کو نظارا ہے
وہ مہ رو اے فلک پھرتا ہے ہر شب میری آنکھوں میں
تصور نے مرے غم خانے میں اک چاند تارا ہے
سر بالیں نہ پایا تجھ کو اے عیسیٰ تو گھبرا کر
شب فرقت میں عزرائیل کو ہم نے پکارا ہے
فلک قاتل ہے تیغ ماہ نو کے زخم ہیں تن پر
شفق ہے خوں ہمارا چاندنی نے ہم کو مارا ہے
بجا ہے تجھ سے اے بت خلق کو دعویٰ محبت کا
خدا واحد ہے پر ہر شخص کہتا ہے ہمارا ہے
میں ہوں اے ہم صفیر بلبل زار اس گلستاں کا
جو ٹھیکے میں ہے صیادوں کے گلچیں کا اجارا ہے
نہ پوچھو حال کچھ دل کی لگی کا مجھ جلے تن کی
جہنم جس کو کہتے ہیں وہ اس کا اک شرارا ہے
سیہ کاری ہی میں نے عمر بھر کی تیرہ بختی سے
ترا حال سیہ کیا میری قسمت کا ستارہ ہے
مجھے بھی پار اترنا ہے ڈبو کر کشتیٔ تن کو
کنارا گور کا گر بحر الفت کا کنارا ہے
گرا ہوں کیا جدائی میں بہ زور ناتوانی سے
نہ طاقت آہ کرنے کی نہ اف کرنے کا یارا ہے
نکلتا ہے مرا دم مجمع یاراں ہے بالیں پر
نہ منہ سے بات ہوتی ہے نہ آنکھوں سے اشارہ ہے
فروغ خال روئے آتشیں پر ہو نہیں ممکن
کہیں خورشید کے بھی سامنے چمکا ستارہ ہے
بنایا دانۂ انگور کا کنٹھا ہے مستی میں
چمن میں بہر مے خواری کیا جب استخارا ہے
کسی صورت مری بخشش نہیں اے عرشؔ ہے ممکن
پیمبر کا وسیلہ ابر رحمت کا سہارا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |