Jump to content

نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا

From Wikisource
نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا
by شیخ قلندر بخش جرات
296704نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایاشیخ قلندر بخش جرات

نہ گرمی رکھے کوئی اس سے خدایا
شرارت سے جی جس نے میرا جلایا

نہ بے چین ہو کوئی اب اس کی خاطر
مرا چاہنا جو نہ خاطر میں لایا

بہم دیکھ دو شخص ہو وہ بھی مضطر
اکیلا میں جس کے لیے تلملایا

پھرے جستجو میں نہ اب کوئی اس کی
مجھے جس نے گلیوں میں برسوں پھرایا

نہ بھولے سے یاد اب کرے کوئی اس کو
مرا یاد کرنا بھی جس نے بھلایا

نہ خوش ہو اب اس پاس بیٹھے سے کوئی
ہمیں کر کے آزردہ جس نے اٹھایا

خریدار پیدا نہ ہو کوئی اس کا
کہ دل بیچ کر ہم نے دکھ جس سے پایا

تحیر ہو دیکھ آئینہ اس کو جس نے
ہمیں کر کے حیراں نہ مکھڑا دکھایا

لگے لاگ اس سے کسی کی نہ یارب
ہماری لگی کو نہ جس نے بجھایا

کہوں داستاں میں گر اپنی اور اس کی
تو حیران ہو سن کے اپنا پرایا

کہ پہلے کی اظہار خود اس نے الفت
نہ آیا تو سو بار گھر سے بلایا

جتائیں وہ باتیں جنہیں سحر کہیے
دکھایا وہ عالم کہ وحشی بنایا

رکھی بے تکلف ملاقات چندے
بہ منت مجھے پاس پہروں بٹھایا

کسی کا نہ اک حرف خاطر میں گزرا
اسے گرچہ لوگوں نے کیا کیا پڑھایا

سو اب وہ جھلک تک دکھاتا نہیں ہے
گیا میں جو گھر سے تو در تک نہ آیا

لگاوٹ یہ کچھ کر کے پھر کیا غضب ہے
مرا لگ گیا دل تو پردہ لگایا

بہ تغییر بحر اور جرأتؔ غزل کہہ
کہ یہ طرفہ مضمون تو نے سنایا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.