Jump to content

نہ گل سے ہے غرض تیرے نہ ہے گلزار سے مطلب

From Wikisource
نہ گل سے ہے غرض تیرے نہ ہے گلزار سے مطلب
by ماہ لقا بائی
304236نہ گل سے ہے غرض تیرے نہ ہے گلزار سے مطلبماہ لقا بائی

نہ گل سے ہے غرض تیرے نہ ہے گلزار سے مطلب
رکھا چشم نظر شبنم میں اپنے یار سے مطلب

یہ دل دام نگہ میں ترک کے بس جا ہی اٹکا ہے
بر آوے کس طرح اللہ اب خوں خوار سے مطلب

بجز حق کے نہیں ہے غیر سے ہرگز توقع کچھ
مگر دنیا کے لوگوں میں مجھے ہے پیار سے مطلب

نہ سمجھا ہم کو تو نے یار ایسی جاں فشانی پر
بھلا پاویں گے اے ناداں کسی ہشیار سے مطلب

نہ چنداؔ کو طمع جنت کی نے خوف جہنم ہے
رہے ہے دو جہاں میں حیدر کرار سے مطلب


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.