نیند آتی ہی نہیں دھڑکے کی بس آواز سے
Appearance
نیند آتی ہی نہیں دھڑکے کی بس آواز سے
تنگ آیا ہوں میں اس پرسوز دل کے ساز سے
دل پسا جاتا ہے ان کی چال کے انداز سے
ہاتھ میں دامن لیے آتے ہیں وہ کس ناز سے
سیکڑوں مردے جلائے ہو مسیحا ناز سے
موت شرمندہ ہوئی کیا کیا ترے اعجاز سے
باغباں کنج قفس میں مدتوں سے ہوں اسیر
اب کھلے پر بھی تو میں واقف نہیں پرواز سے
قبر میں راحت سے سوئے تھے نہ تھا محشر کا خوف
بعض آئے اے مسیحا ہم ترے اعجاز سے
وائے غفلت بھی نہیں ہوتی کہ دم بھر چین ہو
چونک پڑتا ہوں شکست ہوش کی آواز سے
ناز معشوقانہ سے خالی نہیں ہے کوئی بات
میرے لاشے کو اٹھائے ہیں وہ کس انداز سے
قبر میں سوئے ہیں محشر کا نہیں کھٹکا رساؔ
چونکنے والے ہیں کب ہم صور کی آواز سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |