نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں
Appearance
نے زخم خوں چکاں ہوں نہ حلق بریدہ ہوں
عاشق ہوں میں کسی کا اور آفت رسیدہ ہوں
ہستی سے اپنی مجھ کو نہیں مطلق آگہی
عمر گزشتہ یا کہ غزال رمیدہ ہوں
نکلے ہے میری وضع سے اک شورش جنوں
دریا نہیں میں سیل گریباں دریدہ ہوں
مرغان باغ میں مرے نالے کا شور ہے
ہر چند میں ابھی نفس نا کشیدہ ہوں
پہنچے سزا کو اپنی جو منہ پر مرے چڑھے
میں دست روزگار میں تیغ کشیدہ ہوں
جاتا ہے جلد قافلۂ عمر کس قدر
مہلت نہیں ہے اتنی کہ ٹک آرمیدہ ہوں
کون اٹھ گیا ہے پاس سے میرے جو مصحفیؔ
روتا ہوں زار زار پڑا آب دیدہ ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |