نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
نے شہریوں میں ہیں نہ بیابانیوں میں ہم
آزاد ہیں پہ ہیں ترے زندانیوں میں ہم
جن کا نظیر دست قضا سے نہ بن سکا
انصاف ہو تو ہیں انہی لا ثانیوں میں ہم
دریا کی لہروں سے یہ عیاں ہے کہ جوں حباب
رکھتے ہیں دل کو جمع پریشانیوں میں ہم
رشکوک میرے اشک کے لے اس نے یوں کہا
ان موتیوں کو ڈالیں گے چودانیوں میں ہم
اب طائران دشت کے ہیں ہم نشید درد
کرتے تھے زمزمے کبھی بستانیوں میں ہم
اے تیغ ناز تو نے یہ کیسا ستم کیا
بے ذبح رہ گئے ترے قربانیوں میں ہم
جس جا پڑے ہیں کشتے ترے ان کے جو نسیم
بوسے ہی دیتے پھرتے ہیں پیشانیوں میں ہم
سو عیدیں آئیں اور ہوا ہم کو حکم قتل
کیا ناقبول ہیں ترے زندانیوں میں ہم
اے شہسوار حسن عناں لے کہ پس گئے
تیرے سمند ناز کی جولانیوں میں ہم
مدرک ہیں جز و کل کے پہ رہتے ہیں رات دن
اس کار گاہ صنع کی حیرانیوں میں ہم
کشتی شکست خوردۂ دریائے عشق ہیں
جاتے ہیں ترتے ڈوبتے طوفانیوں میں ہم
محتاج مرگ کاہے کو پھر ہوویں مصحفیؔ
جیتے ہی جی جو بیٹھے ہوں روحانیوں میں ہم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |