نے غرض کفر سے رکھتے ہیں نہ اسلام سے کام
Appearance
نے غرض کفر سے رکھتے ہیں نہ اسلام سے کام
مدعا ہم کو تو ساقی سے ہے اور جام سے کام
دل نالاں کو مرے کس کے ہے آرام سے کام
کوئی بے چین رہو اپنے اسے کام سے کام
اس چمن میں نہ کسی چشم سے پونچھے کوئی اشک
صبح تک ہم کو بھی شبنم یہی ہے شام سے کام
کیوں نہ افعی چلے ہر ایک جگہ مکڑا کر
نہ پڑا اس کو تری زلف سیہ فام سے کام
گر اکیلا کہیں مل جائے ہمیں تو دل کا
لیجے من مانتا اس شوخ گل اندام سے کام
ہوں اسیر اس کا جسے بعد گرفتاریٔ صید
نہ گرفتار سے مطلب رہے نے دام سے کام
ہے مبرا یہ زباں کہنے سے اب رام و رحیم
جن نے پایا ہے نشاں اس کو نہیں نام سے کام
چشم خورشید کو غرفے سے ترے دن سروکار
رات ہے دیدۂ شبنم کو لب بام سے کام
جو میں آغاز ترے کام کا دیکھا سوداؔ
وائے وہ دن کہ تجھے اس کے ہو انجام سے کام
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |