واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
Appearance
واں رسائی نہیں تو پھر کیا ہے
یہ جدائی نہیں تو پھر کیا ہے
ہو ملاقات تو صفائی سے
اور صفائی نہیں تو پھر کیا ہے
دل ربا کو ہے دل ربائی شرط
دل ربائی نہیں تو پھر کیا ہے
گلہ ہوتا ہے آشنائی میں
آشنائی نہیں تو پھر کیا ہے
اللہ اللہ رے ان بتوں کا غرور
یہ خدائی نہیں تو پھر کیا ہے
موت آئی تو ٹل نہیں سکتی
اور آئی نہیں تو پھر کیا ہے
مگس قاب اغنیا ہونا ہے
بے حیائی نہیں تو پھر کیا ہے
بوسۂ لب دل شکستہ کو
مومیائی نہیں تو پھر کیا ہے
نہیں رونے میں گر ظفرؔ تاثیر
جگ ہنسائی نہیں تو پھر کیا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |