واں سے گھر آ کے کہاں سونا تھا
Appearance
واں سے گھر آ کے کہاں سونا تھا
صبح تک یاد تھی اور رونا تھا
جب ہوئی صبح تو بستر سے پھر اٹھ
گریۂ خونی سے منہ دھونا تھا
دھو چکے منہ کو تو کشت دل میں
تخم غم کا ہمیں پھر بونا تھا
بو چکے تخم تو پایا یہ ثمر
کہ جگر کاوی تھی جی کھونا تھا
جی کے کھونے کے ہو درپئے یہ کہا
کہ نصیبوں میں یہی ہونا تھا
ہونا قسمت کا کہیں کیا تا شام
ہم تھے اور گھر کا بس اک کونا تھا
کونے لگ بیٹھے تو جرأتؔ اے وائے!
پھر وہی رات تھی اور رونا تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |