واں ہے یہ بد گمانی جاوے حجاب کیوں کر
واں ہے یہ بد گمانی جاوے حجاب کیوں کر
دو دن کے واسطے ہو کوئی خراب کیوں کر
قاصد جواب خط ہم لکھ دیں شتاب کیوں کر
واں تو جواب مانگا لکھیے جواب کیوں کر
خواب و خیال سونا یاں ہو گیا ہے جس بن
حیراں ہوں میں کہ اس کو آوے ہے خواب کیوں کر
اس سبزہ رنگ کی ہے گرمیٔ حسن گویا
چمکے ہے مہر دیکھو زیر سحاب کیوں کر
کہتی ہیں چتونیں یوں بن ٹھن کے جب وہ نکلے
اب دیکھنے کی دیکھیں لاوے گا تاب کیوں کر
وہ وصل میں بھی ہنس ہنس پوچھے ہے لو بتاؤ
کل روئیں گی تمہاری چشم پر آب کیوں کر
دل جس سے لگ گیا ہے وہ چھپ رہا ہے ہم سے
دوڑے پھریں نہ ہر سو پر اضطراب کیوں کر
اللہ رے بھلاپا منہ دھو کے خود وہ بولے
سونگھو تو ہو گیا یہ پانی گلاب کیوں کر
چالاکیوں کو سن کر اس غیرت پری کی
گر رک کے کہیے اس کی ہم لائیں تاب کیوں کر
تو یوں لگے جتانے میاں تم تو ہو دوانے
رہنے دے ہم کو نچلا عہد شباب کیوں کر
اول بھی خاک ہی تھے آخر بھی خاک ہوں گے
ہر دم کہیں نہ جرأتؔ یا بو تراب کیوں کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |