واہ کیا ہم کو بنایا اور بنا کر رہ گئے
Appearance
واہ کیا ہم کو بنایا اور بنا کر رہ گئے
وصل کا مژدہ سنایا اور سنا کر رہ گئے
لے گیا شوق اس کے در تک پھر کمی ہمت نے کی
حلقۂ در کو ہلایا اور ہلا کر رہ گئے
میں نے جو اپنے دل گم گشتہ کی پوچھی خبر
سر ہلایا مسکرائے مسکرا کر رہ گئے
غیرت دشمن کی خاطر میری غیرت لائی رنگ
مجھ کو محفل میں بلایا اور بلا کر رہ گئے
کام رونے سے بھی ساقیؔ اپنا کچھ نکلا نہیں
لکھا قسمت کا مٹایا اور مٹا کر رہ گئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |