Jump to content

وحشت تھی ہم تھے سایۂ دیوار یار تھا

From Wikisource
وحشت تھی ہم تھے سایۂ دیوار یار تھا
by یاس یگانہ چنگیزی
300339وحشت تھی ہم تھے سایۂ دیوار یار تھایاس یگانہ چنگیزی

وحشت تھی ہم تھے سایۂ دیوار یار تھا
یا یہ کہو کہ سر پہ کوئی جن سوار تھا

بگڑا چمن میں کل ترے وحشی کا جب مزاج
جھونکا نسیم کا بھی اسے ناگوار تھا

لالے کا داغ دیکھ کے چتون بدل گئی
تیور سے صاف راز جنوں آشکار تھا

پہلے تو آنکھیں پھاڑ کے دیکھا ادھرادھر
دامن پھر اک اشارے میں بس تار تار تھا

اللہ رے توڑ نیچی نگاہوں کے تیر کا
اف بھی نہ کرنے پائے تھے اور دل کے پار تھا

نیرنگ حسن و عشق کی وہ آخری بہار
تربت تھی میری اور کوئی اشک بار تھا

جھک جھک کے دیکھتا ہے فلک آج تک اسے
جس سرزمیں پہ میرا نشان مزار تھا

ساحل کے پاس یاسؔ نے ہمت بھی ہار دی
کچھ ہاتھ پاؤں مارتا ظالم تو پار تھا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.