وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے
Appearance
وحشت میں بھی رخ جانب صحرا نہ کریں گے
جب تک کہ تمہیں شہر میں رسوا نہ کریں گے
گھبرا گئے بیتابی دل دیکھ کے اے جان
ٹھہرو تو ابھی ہجر میں کیا کیا نہ کریں گے
مر جاؤں تو مر جاؤں برا مانیں تو مانیں
پھر کیسے مسیحا ہیں جو اچھا نہ کریں گے
وہ حسن میں کامل ہیں تو ہم صبر میں یکتا
تا عمر کبھی ذکر بھی ان کا نہ کریں گے
چھپ چھپ کے کہیں گے جو چھپانے کے سخن ہیں
ہم تم سے کسی بات کا پردا نہ کریں گے
بدنامی سے ڈرتے ہو عبث عشق میں اے برقؔ
کب تک بشر اس بات کا چرچا نہ کریں گے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |