وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر
Appearance
وحشت میں یاد آئے ہے زنجیر دیکھ کر
ہم بھاگتے تھے زلف گرہ گیر دیکھ کر
جب تک نہ خاک ہو جیے حاصل نہیں کمال
یہ بات کھل گئی ہمیں اکسیر دیکھ کر
عذر گناہ داور محشر سے کیوں کروں
غم مٹ گیا ہے نامۂ تقدیر دیکھ کر
ہوں تشنہ کام دشت شہادت زبس کہ میں
گرتا ہوں آب خنجر و شمشیر دیکھ کر
عارفؔ چھپا تو ہم سے ولے ہم تو پا گئے
جو بات ہے یہ رنگ کی تغییر دیکھ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |