وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
Appearance
وحشت ہے میرے دل کو تو تدبیر وصل کر
پانو میں اس غزال کے زنجیر وصل کر
زخمی شکار ہوں میں ترا مر ہی جاؤں گا
پہلو سے مت جدا تو مرے تیر وصل کر
اک لحظہ تیری باتوں سے آتا ہے دل کو چین
ہم دم خدا کے واسطے تقریر وصل کر
دست دراز اپنے کو طوق گلو مرا
تو ایک دم تو اے خم شمشیر وصل کر
اے مہ یہ تیری دور کشی کب تلک بھلا
اک شب تو تو ارادۂ شب گیر وصل کر
سینہ پہ سینہ خشت پہ گویا کہ خشت ہے
اب اے فلک نظارۂ تعمیر وصل کر
تہمت لگے گی پاس بٹھانے سے فائدہ
ناحق نہ مجھ کو مورد تقصیر وصل کر
مت چاندنی میں آ کہ زمانہ غیور ہے
اس کام کو سپرد شب قیر وصل کر
شاید کہ پڑھ کے نرم ہو دل اس کا مصحفیؔ
جا کر حوالے اس کے یہ تحریر وصل کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |