وصل میں بگڑے بنے یار کے اکثر گیسو
Appearance
وصل میں بگڑے بنے یار کے اکثر گیسو
الجھے سلجھے مری تقدیر سے شب بھر گیسو
میں نہ مانوں گا یہ ظلمت اسے کس دن ہو نصیب
ہو گئے ہوں گے شریک شب محشر گیسو
کہنے سننے سے اگر وصل ہوا بھی تو کیا
ضد سے بیٹھے وہ بنایا کیے شب بھر گیسو
چاہتے ہیں کہ پریشاں پس مردن بھی رہوں
کھول دیتے ہیں مری گور پر آ کر گیسو
اڑ چلا اور بھی وہ رشک پری زاداں سے
بن گئے حسن کے پرواز کو شہپر گیسو
آرزو ہے کہ شب قدر ہو یا شام امید
کچھ دکھائے نہ خدا تیرے دکھا کر گیسو
یہ بھی تقدیر کے ہیں پیچ وگرنہ تسلیمؔ
مجھ سا آزاد ہو پابند معنبر گیسو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |