وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے
وعدۂ وصل اور وہ کچھ بات ہے
ہو نہ ہو اس میں بھی کوئی گھات ہے
خلق ناحق درپئے اثبات ہے
ہے دہن اس کا کہاں اک بات ہے
بوسۂ چاہ زنخداں غیر لیں
ڈوب مرنے کی یہ اے دل بات ہے
گھر سے نکلے ہو نہتے وقت قتل
یہ بھی بہر قتل عاشق گھات ہے
میں نے اتنا ہی کہا بنواؤ خط
یہ بگڑنے کی بھلا کیا بات ہے
بعد مدت بخت جاگے ہیں مرے
بیٹھے ہیں سونے کو ساری رات ہے
کیا کروں وصف بتان خودپسند
ان سے بڑھ کر بس خدا کی ذات ہے
باتوں باتوں میں جو میں کچھ کہہ گیا
ہنس کے فرمانے لگے کیا بات ہے
حرف مطلب صاف کہہ سکتا نہیں
ہے ادب مانع کہ پہلی رات ہے
مجھ سے ہو اظہار الفت واہ وا
آپ کے فرمانے کی یہ بات ہے
رو رہے ہیں ہم ملا دے لب سے لب
مے کشی ہو ساقیا برسات ہے
زچ ہے تیری چال سے رفتار چرخ
مہر رخ سے بازیٔ مہ مات ہے
کیسی کٹتی ہے سیہ بختی میں عمر
رات سے دن دن سے بد تر رات ہے
چھیڑتا ہے دل کو کیا اے درد ہجر
خود گرفتار ہزار آفات ہے
اے غنی دے سیم و زر وقت بلا
مال دنیا جان کی خیرات ہے
گر جگہ دل میں نہیں پھر اس سے کیا
یہ دوشنبے کی یہ بدھ کی رات ہے
صاف کہہ دے تو یہاں آیا نہ کر
یار یہ سو بات کی اک بات ہے
لخت دل ہیں میرے کھانے کو امیرؔ
بس انہیں ٹکڑوں پہ اب اوقات ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |