Jump to content

وفا شعار کو تو نے ذلیل و خوار کیا

From Wikisource
وفا شعار کو تو نے ذلیل و خوار کیا
by پنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق
318138وفا شعار کو تو نے ذلیل و خوار کیاپنڈت جگموہن ناتھ رینا شوق

وفا شعار کو تو نے ذلیل و خوار کیا
جفا پرست یہ کیا شیوہ اختیار کیا

اٹھائے سے نہ اٹھا دل کا پردۂ غفلت
خطا ہوئی کہ ان آنکھوں پہ اعتبار کیا

نگاہ مست حقیقت تو دے چکی تھی جواب
مگر یہ دل ہی تھا پھر اس نے ہوشیار کیا

نہ وہ تڑپ رہی دل میں نہ وہ رہی سوزش
علاج کیا تھا یہ کیا تو نے غم گسار کیا

دکھا کے جلوۂ باطل کی اک جھلک اے حسن
خدا کے بندہ کو ناحق گناہ گار کیا

کسی کے بس کا دل مضطرب نہ تھا لیکن
ہمیں نے خوگر اندوہ انتظار کیا

خیال عشق نے رحمت سے بھی رکھا محروم
یہ کیا کیا کہ گناہوں پہ اعتبار کیا

کہے میں آ کے دل ناصبور کے ہم نے
تمام شب ترے آنے کا انتظار کیا

تمہیں تو خاک میں ملنا تھا مل گئے آخر
جہاں میں شوق عبث ان کو شرمسار کیا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.