Jump to content

وفا میں برابر جسے تول لیں گے

From Wikisource
وفا میں برابر جسے تول لیں گے
by امداد علی بحر
302748وفا میں برابر جسے تول لیں گےامداد علی بحر

وفا میں برابر جسے تول لیں گے
اسے سلطنت بیچ کر مول لیں گے

اجازت اگر سر پٹکنے کی ہوگی
مقفل در یار ہم کھول لیں گے

طبیبو نہ بخشے کی صحت ٹھنڈ آئے
نہ جب تک کہ زہر اس میں ہم گھول لیں گے

کسی دن جو پلٹا مقدر ہمارا
بکے جس کے ہاتھوں اسے مول لیں گے

گلوں سے نہ ہوگی جو عقدہ کشائی
گرہ دل کے کانٹے سے ہم کھول لیں گے

ہمیں باغ جانے سے یہ مدعا ہے
ذرا بلبل و گل سے ہنس بول لیں گے

رہائی نہ دیں گے وہ قید ستم سے
نہ جب تک میری جان کو اول لیں گے

بدن کیوں چھپاتے ہو زیور پہن کر
جواہر کے اکے نہ ہم کھول لیں گے

ابھی ہم سے اور ان سے صحبت نئی ہے
جو منہ لگ چلیں گے تو ہنس بول لیں گے

غم یار بھی ابر نیساں ہے اے بحرؔ
جو ٹپکیں گے آنسو گہر رول لیں گے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.