وفا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
Appearance
وفا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
کہا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
مسیحائی کا دعویٰ اور بیماروں سے یہ غفلت
دوا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
رقیبوں پر عدو پر غیر پر چرخ ستم گر پر
جفا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
کبھی داد محبت دے کے حق میری وفاؤں کا
ادا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
زکات حسن دے کر اپنے کوچے کے گداؤں کا
بھلا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
دل مضطرؔ کو قید دام گیسوئے پریشاں سے
رہا کیا کر نہیں سکتے ہیں وہ لیکن نہیں کرتے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |