Jump to content

وقت کی ڈبیا

From Wikisource
وقت کی ڈبیا
by افسر میرٹھی
318969وقت کی ڈبیاافسر میرٹھی

اچھی اماں وقت کی ڈبیا جو کھل جائے کہیں
اور یہ گھنٹے اور منٹ سارے نکل کر بھاگ جائیں
تب مجھے مکتب نہ جانے پر برا کہنا نہ تم
تب تو مکتب کا نہ ہوگا وقت ہی گویا کبھی
جس قدر گھڑیاں ہیں دنیا بھر میں وہ تو سب کی سب
دیکھ لینا دس بجانا ہی نہ جانیں گی کبھی

دیکھو اماں اب جو سونے کے لیے لیٹوں نہ میں
تم نہ اب مجھ پر خفا ہونا خطا میری نہیں
کیسے سوؤں میں نشاں تک بھی نہ ہو جب رات کا
میری اماں اب تو راتیں ساری غائب ہو گئیں

اچھی اماں آج تو اک بات میری مان لو
بس کہانی پر کہانی مجھ سے تم کہتی رہو
تم کہو گی یہ کہانی ختم ہوتی ہی نہیں
ختم ہو جائے کہانی رات جب آگے بڑھے
دیکھ لینا آج سونے کو نہ ہوگی دیر کچھ
وقت کی ڈبیا کے کھل جانے سے راتیں اڑ گئیں


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.