وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
Appearance
وہی لوگ پھر آنے جانے لگے
مرے پاس کیوں آپ آنے لگے
کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے
بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے
یہ کیا جذب دل کھینچ لایا انہیں
مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے
ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ
ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے
ہمارے ہی آگے گلے غیر کے
ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے
نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب
تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |