Jump to content

وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم

From Wikisource
وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم
by باقی صدیقی
330859وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہمباقی صدیقی

وہ اندھیرا ہے جدھر جاتے ہیں ہم
اپنی دیواروں سے ٹکراتے ہیں ہم

کاٹتے ہیں رات جانے کس طرح
صبح دم گھر سے نکل آتے ہیں ہم

بند کمرے میں سکوں ملنے لگا
جب ہوا چلتی ہے گھبراتے ہیں ہم

ہائے وہ باتیں جو کہہ سکتے نہیں
اور تنہائی میں دہراتے ہیں ہم

زندگی کی کشمکش باقیؔ نہ پوچھ
نیند جب آتی ہے سو جاتے ہیں ہم


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.