وہ تو یوں ہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
وہ تو یوں ہی کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
میرا یہ مقولہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کہہ جاتا ہے وہ صاف ہزاروں مجھے باتیں
پھر اس پہ یہ کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
اے دوستو اس شوخ کا میں کیا کہوں عالم
کچھ آج وہ دیکھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
یوں غیر ستائیں مجھے اور کچھ نہ کہوں میں
منہ مجھ کو تمہارا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ہر بات پہ کیا کیا ہمیں کہتا ہے وہ ظالم
گر کہیے تو کہتا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
بس اور کیا چاہتے ہو مجھ پہ ستم کیا
سوچو تو یہ تھوڑا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیا حال بنایا ہے غم غیر میں اپنا
وہ آپ کا نقشا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
جز میرے کسی اور کو تو آپ ستائیں
ہاں آپ نے سمجھا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
ایسا ہمیں کہتے ہو کہ بس جانتے ہیں ہم
یہ آپ کو دھوکا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
کیا کیا مجھے تم کہتے ہو انصاف تو کیجے
یہ حوصلہ میرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
دعویٰ کریں گو اور نظامؔ اپنے سخن پر
پر مجھ کو یہ دعویٰ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |