وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے
وہ دریا بار اشکوں کی جھڑی ہے
کہ حوت آسماں تہہ میں پڑی ہے
مرے ارماں بتوں کی سرد مہری
زراعت برف کے پالے پڑی ہے
چمن میں سرو کا بہروپ بھر کر
قیامت منتظر کس کی کھڑی ہے
دہان تنگ غنچہ پتیاں لب
ہنسی ہے پھول فقرہ پنکھڑی ہے
لگا دی آگ کس شعلہ نے بلبل
ہر اک پھولوں کی ٹہنی پھلجھڑی ہے
نگاہ یاس کس کی کر گئی چوٹ
کہ گردن تیغ کی ڈھلکی پڑی ہے
عناصر جلد پہنچا دیں گے تا گور
نہایت تیز رو یہ چوکڑی ہے
کفن سے منہ لپیٹے میری حسرت
دل ویراں کے کونے میں پڑی ہے
سرہانے مدعی آیا تو جانا
جدائی کی گھڑی سر پر کھڑی ہے
کسی کو پار اتارے گا فلک کیا
اسی کی ناؤ چکر میں پڑی ہے
بنا لے عقل آگ کا پتلا فلاطوں
کہ تلچھٹ کچھ مرے خم میں پڑی ہے
نشہ ہے اور ہرن ہیں اس کی آنکھیں
نظر بازی ہرن کی چوکڑی ہے
نگاہ شوق سے سینہ چرایا
ہماری چوٹ تم سے بھی کڑی ہے
بلائے زلف مہماں سے کہوں کیا
نہیں ٹلتی مرے سر آ پڑی ہے
سیاہی دور ہوگی رفتہ رفتہ
ابھی زاہد کی داڑھی کڑبڑی ہے
سر محشر بڑھی ہے کس قدر زلف
قیامت کس قدر اوچھی پڑی ہے
گہر بیں ہے نظام الملک اپنا
طبیعت کیا بیاںؔ قسمت لڑی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |