وہ رشک مہر و قمر گھات پر نہیں آتا
وہ رشک مہر و قمر گھات پر نہیں آتا
کبھی اندھیرے اجالے نظر نہیں آتا
یہ کہہ دو کوچۂ جاناں کے جانے والوں سے
ادھر جو کوئی گیا پھر ادھر نہیں آتا
طلائی رنگ یہ کیا کیا چلے ہیں تلواریں
کسی کے قبضے میں وہ کنج زر نہیں آتا
وہ ناتواں ہوں کہ سنتا نہیں کوئی میری
وہ زار ہوں کہ کسی کو نظر نہیں آتا
مری طرف سے یہ غفلت ہے ہم صفیروں کو
چمن سے اڑ کے کبھی ایک پر نہیں آتا
نہیں نصیب میں اپنی جو دولت بیدار
تو خواب میں بھی مرا سوئمبر نہیں آتا
عذاب نزع ہی قاصد کا انتظار مجھے
اجل ہی آئے اگر نامہ بر نہیں آتا
وہ کون لوگ ہیں جن پر ہما ہے سایہ فگن
یہاں تو بوم بھی بالائے سر نہیں آتا
یہاں وسیلۂ روزی فقط ہے یاد خدا
کہ ہیچ کارہ ہیں کوئی ہنر نہیں آتا
بشر کو چاہنے انجام کار کی کچھ فکر
جہان میں کوئی بار دگر نہیں آتا
صنم کو ہاتھ سے جانے نہ دیجئے اے بحرؔ
نکل کے مشت صدف سے گہر نہیں آتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |