وہ زار ہوں کہ سر پہ گلستاں اٹھا لیا
وہ زار ہوں کہ سر پہ گلستاں اٹھا لیا
وہ خار ہوں کہ پہلوے گل کو دبا لیا
کیا مجھ سے چال چلتے وہ میں بھی ہوں چالیا
کترا کے چل دیئے تھے کہ بندہ نے جا لیا
کیا بات بوسۂ لب جاں بخش یار کے
پنجے سے موت کے مجھے اس نے بچا لیا
میں جیسے نالے کرتا ہوں ان کے خیال میں
گائے تو اس طرح سے گویا خیالیا
ان کی گلی کے کتے سے تو منہ کی کھائے گا
ہڈی کا میرے نام جو تو نے ہما لیا
تصویر کھینچتا ہوں سراپائے یار کی
ہیں عالم مثال کہ شعر مثالیا
اٹھوا دیا رقیب کو واں بیٹھ بیٹھ کے
ایسے جمے کہ ہم نے بھی نقشہ جما لیا
داغوں کی بس دکھا دی دوالی میں روشنی
ہم سا نہ ہوگا کوئی جہاں میں دیوالیہ
کہنے لگے مرید کہ پہنچے ہوئے ہیں آپ
موسیٰ بنا وہ ہاتھ میں جس نے عصا لیا
ایسے نہ جیب کترے کہیں ہیں نہ گٹھ کٹے
پہلو میں بیٹھتے ہی دل اس نے اڑا لیا
آیا شباب روپ پہ حسن و جمال ہے
اس باغ میں بہار نے رنگ اب جما لیا
واعظ حساب دیں گے وہاں تجھ سے دانہ زد
رزاق کا ہے شکر جو کھلوایا کھا لیا
یاد آ گئی جو ہم کو وہ گردن صراحی دار
شیشہ کو مے کدہ میں گلے سے لگا لیا
للہ بوئے گل سے نہ کر مجھ کو بد دماغ
خوشبو اڑا کے ان کے بدن کی صبا لیا
آتے ہیں وہ کہیں سے تو اے مہرؔ قرض دام
چکنی ڈلی الاچی منگا پان چھالیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |