وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا
Appearance
وہ شوخ بام پہ جب بے نقاب آئے گا
تو ماہتاب فلک کو حجاب آئے گا
خبر نہ تھی کہ مٹیں گے جوان ہوتے ہی
اجل کا بھیس بدل کر شباب آئے گا
پڑے گا عکس جو ساقی کی چشم میگوں کا
نظر شراب میں جام شراب آئے گا
ہزار حیف کہ سر نامہ بر کا آیا ہے
سمجھ رہے تھے کہ خط کا جواب آئے گا
کلیم ہاں دل بیتاب کو سنبھالے ہوئے
سنا ہے طور پہ وہ بے نقاب آئے گا
جو آرزو ہے ہماری وہ کہہ تو دیں لیکن
خیال یہ ہے کہ تم کو حجاب آئے گا
یہ شوخیاں تری اس کم سنی میں اے ظالم
قیامت آئے گی جس دن شباب آئے گا
کبھی یہ فکر کہ وہ یاد کیوں کریں گے ہمیں
کبھی خیال کہ خط کا جواب آئے گا
چلا ہے ہجرؔ سیہ کار بزم جاناں کو
ذلیل ہو کے یہ خانہ خراب آئے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |