وہ عالمگیر جلوہ اور حسن مشترک تیرا
وہ عالمگیر جلوہ اور حسن مشترک تیرا
خدا جانے ان آنکھوں کو ہوا کس کس پہ شک تیرا
بتا حد سے سوا ہم پاؤں پھیلائیں کدھر جائیں
فقط دو گز زمیں اپنی ہے اور ساتوں فلک تیرا
کیا اے سونے والے رحم صبح وصل نے تجھ پر
کہ جوں جوں کھلتی ہیں آنکھیں مٹا جاتا ہے شک تیرا
بس اب حد ہے کہ غیروں تک کا دامن جا کے پکڑا ہے
ڈگے کس کس جگہ ہم ہو گیا کس کس پہ شک تیرا
ترے نقش قدم کی گرد تک پہنچے نہ واماندہ
بہت پیچھا کیا اے کارواں کوسوں تلک تیرا
غذائے روح ہے اے حسن تو اپنی ملاحت سے
ہر اک کے ذائقے میں ٹھیک ہے آب و نمک تیرا
اگر آنکھیں سلامت ہیں تو کیا کیا کچھ دکھائے گا
یہی پھیلا ہوا جلوہ سما سے تا سمک تیرا
مری ہم دردیوں سے ہو گئی غیروں کو اک عبرت
لیا گھبرا کے جب جب نام نامی بے دھڑک تیرا
نہ پوچھو عشق نے غیرت سے کیا کیا رنگ بدلا ہے
خیال آیا ہے ساتھ اوروں کے جب جب مشترک تیرا
فقط زاہد پہ کیا موقوف سب کی رال ٹپکی ہے
وہ شوخی وہ نمو کے دن وہ چہرہ بے ڈلک تیرا
بہت تو نے جب اپنے پاؤں پھیلائے تو کیا چارہ
ادب کرتی رہی اے اشک مدت تک پلک تیرا
عبث الجھا کے رکھا ہے کوئی انصاف بھی آخر
امیدیں ساتھ دیں گی شادؔ آخر کب تلک تیرا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |