Jump to content

وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی

From Wikisource
وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی
by مضطر خیرآبادی
308602وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئیمضطر خیرآبادی

وہ قضا کے رنج میں جان دیں کہ نماز جن کی قضا ہوئی
ترے مست بادۂ شوق نے نہ کبھی پڑھی نہ ادا ہوئی

ترے دور دورۂ عشق میں مری ایک رنگ سے کٹ گئی
نہ ستم ہوا نہ کرم ہوا نہ جفا ہوئی نہ وفا ہوئی

مجھے غیر عجز و نیاز نے ترے در پہ جا کے جھکا دیا
نہ تو کوئی عہد لکھا گیا نہ تو کوئی رسم ادا ہوئی

مرا دل بھی تھا مری جاں بھی تھی نہ وہی رہا نہ یہی رہی
مجھے کیا خبر کہ وہ کیا ہوا مجھے کیا خبر کہ یہ کیا ہوئی

مری عمر مضطرؔ خستہ دل کٹی رنج و درد و فراق میں
نہ کسی سے میری دوا ہوئی نہ دوا سے مجھ کو شفا ہوئی


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.