وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک بار رہے
Appearance
وہ مشق خوئے تغافل پھر ایک بار رہے
بہت دنوں مرے ماتم میں سوگوار رہے
خدا کی مار جو اب دل پہ اختیار رہے
بہت قرار کے پردے میں بے قرار رہے
کسی نے وعدۂ صبر آزما کیا تو ہے
خدا کرے کہ مجھے تاب انتظار رہے
فنا کے بعد یہ مجبوریاں ارے توبہ
کوئی مزار میں کوئی سر مزار رہے
سکون موت مری لاش کو نصیب نہیں
رہے مگر کوئی اتنا نہ بے قرار رہے
میں کب سے موت کے اس آسرے پہ جیتا ہوں
کہ زندگی مری مرنے کی یادگار رہے
جو دل بچا نہ سکے جان کیا بچا لیں گے
نہ اختیار رہا ہے نہ اختیار رہے
میں غم نصیب وہ مجبور شوق ہوں فانیؔ
جو نامراد جیے اور امیدوار رہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |