وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم
Appearance
وہ چاندنی رات اور وہ ملاقات کا عالم
کیا لطف میں گزرا ہے غرض رات کا عالم
جاتا ہوں جو مجلس میں شب اس رشک پری کی
آتا ہے نظر مجھ کو طلسمات کا عالم
برسوں نہیں کرتا تو کبھو بات کسو سے
مشتاق ہی رہتا ہے تری بات کا عالم
کر مجلس خوباں میں ذرا سیر کہ باہم
ہوتا ہے عجب ان کے اشارات کا عالم
دل اس کا نہ لوٹے کبھی پھولوں کی صفا پر
شبنم کو دکھا دوں جو ترے گات کا عالم
ہم لوگ صفات اس کی بیاں کرتے ہیں ورنہ
ہے وہم و خرد سے بھی پرے ذات کا عالم
وہ کالی گھٹا اور وہ بجلی کا چمکنا
وہ مینہ کی بوچھاڑیں، وہ برسات کا عالم
دیکھا جو شب ہجر تو رویا میں کہ اس وقت
یاد آیا شب وصل کے اوقات کا عالم
ہم مصحفیؔ قانع ہیں بہ خشک و تر گیتی
ہے اپنے تو نزدیک مساوات کا عالم
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |