وہ کون دل ہے جہاں جلوہ گر وہ نور نہیں
Appearance
وہ کون دل ہے جہاں جلوہ گر وہ نور نہیں
اس آفتاب کا کس ذرہ میں ظہور نہیں
کوئی شتاب خبر لو کہ بے نمک ہے بہار
چمن کے بیچ دوانوں کا اب کے شور نہیں
تجلیوں سے پہنچتا ہے کب اسے آسیب
صنم کدہ ہے نہ آخر یہ کوہ طور نہیں
ترے سفر کی خبر سن کے جان دھڑکوں سے
جو پہنچوں مرگ کے نزدیک میں تو دور نہیں
کوئی بھی دیتا ہے لڑکوں کے ہاتھ شیشۂ دل
یقیںؔ میں غور سے دیکھا تو کچھ شعور نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |