وہ کہاں جلوۂ جاں بخش بتان دہلی
وہ کہاں جلوۂ جاں بخش بتان دہلی
کیوں کہ جنت پہ کیا جانے گمان دہلی
ان کا بے وجہ نہیں ٹوٹ کے ہونا برباد
ڈھونڈے ہے اپنے مکینوں کو مکان دہلی
جس کے جھونکے سے صبا طبلۂ عطار بنے
ہے وہ باد سحر عطر فشان دہلی
مہر زر خاک کو کرتا ہے یہ سچ ہے لیکن
اس سے کچھ بڑھ کے ہیں صاحب نظران دہلی
آئنہ ساز سکندر ہے تو جم جام فروش
وسعت آباد ہے کس درجہ جہان دہلی
کر کے برباد اسے کس کو بسائے گا فلک
کیا کوئی اور بھی ہے شہر بسان دہلی
اس لیے خلد میں جانے کا ہر اک طالب ہے
کہ کچھ اک دور سے پڑتا ہے گمان دہلی
وہ ستم دیکھ چکے تھے کہ رہے آسودہ
فتنہ و حشر میں آفت زدگان دہلی
سمجھے ہیں سوئے ادب جنت ثانی کہنا
وہ کچھ اشخاص جو ہیں مرتبہ دان دہلی
سیلیٔ پنجۂ جلاد ستم سے ہے ہے
نذر بیداد ہوئے منتخبان دہلی
یا خدا حضرت غالبؔ کو سلامت رکھنا
اب اسی نام سے باقی ہے نشان دہلی
کربت غربت و تنہائی و شب ہائے دراز
اور مجروحؔ دل افگار بیان دہلی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |