وہ کیا ہے ترا جس میں جلوا نہیں ہے
Appearance
وہ کیا ہے ترا جس میں جلوا نہیں ہے
نہ دیکھے تجھے کوئی اندھا نہیں ہے
کہاں دامن حسن عاشق سے اٹکا
گل داغ الفت میں کانٹا نہیں ہے
کیا ہے وہاں اس نے پیمان فردا
یہاں ہے وہ شب جس کو فردا نہیں ہے
وہ کہتے ہیں میں زندگانی ہوں تیری
یہ سچ ہے تو ان کا بھروسا نہیں ہے
مری زیست کیوں کر نہ ہو جاودانی
جو مرتا ہے اس پر وہ مرتا نہیں ہے
وہی خاک اڑانا وہی گردشیں ہیں
یہ مانا کہ عاشق بگولا نہیں ہے
گلو گیر ہے ان بھوؤں کا تصور
گریبان میں اپنے کنٹھا نہیں ہے
ان آنکھوں کو جب سے بصارت ملی ہے
سوا تیرے کچھ میں نے دیکھا نہیں ہے
مری حسرتیں اس قدر بھر گئی ہیں
کہ اب تیرے کوچے میں رستا نہیں ہے
وہ دل کیا جو دلبر کی صورت نہ پکڑے
وہ مجنوں نہیں ہے جو لیلیٰ نہیں ہے
کمال ظہور تجلی سے جانا
جو پنہاں نہیں ہے وہ پیدا نہیں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |